پاکستان میں مرکزی مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ہے جن میں سے ایک ایوان زیریں ہے جو کہ قومی اسمبلی اور دوسرا ایوان بالا جسے سینٹ کہتے ہیں، دونوں ایوان ملکر مجلس شوری یعنی اپارٹمنٹ بناتے ہیں۔ پاکستان میں دو طرح کے انتخابات ہوتے ہیں ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں عام انتخابات کے ذریعے نمائندے منتخب ہوتے ہیں جنہیں ہر بالغ براہ راست اپنے ووٹوں سے منتخب کرتا ہے جبکہ سینیٹ کے انتخابات اس سے قدرے مختلف اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ سینیٹ کے اراکین کے انتخاب کا طریقہ کار ان عام انتخابات سے کافی مختلف ہے سینٹ انتخاب میں ارکان کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتے بلکہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے کرتے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے ووٹوں سے سینیٹر کو منتخب کرتے ہیں۔
اس سے پہلے پاکستان میں صرف ایک ہی ایوان تھا جس میں صوبوں کے درمیان قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم آبادی کے لحاظ سے تھی یعنی زیادہ آبادی والے صوبے کو قومی اسمبلی میں زیادہ نمائندگی حاصل تھی جبکہ کم آبادی والے صوبے کو قومی اسمبلی میں کم نمائندگی حاصل تھی۔ قومی اسمبلی میں اس وقت سیٹوں کی تعداد اس طرح ہے کہ گیارہ کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں کل ایم این اے (MNA) کی تعداد 183 ہے جبکہ سوا کروڈ آبادی رکھنے والا صوبہ بلوچستان اس کے ممبران کی تعداد صرف 17 ہے۔
ان اعدادوشمار کے حساب سے کوئی بھی سیاسی جماعت صرف پنجاب میں سے بھاری اکثریت سے جیت کر پورے ملک میں حکومت قائم کر سکتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے ملک میں ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جس میں تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہو سکے۔ اس وقت اس ایوان بالا میں 104 نشستیں ہیں جن میں سے 18 خواتین کی ہیں۔ 1971 میں جب پاکستان ٹوٹ گیا تو اس کی ٹوٹنے کے وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومتیں چھوٹے صوبوں کو توجہ نہیں دیتی تھیں۔ جب ملک ٹوٹا تو 1971 کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ بنایا گیا تاکہ تمام چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کی طرح نمائندگی مل جائے۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں تو ہر صوبے سے ارکان اکثریت کے بنیاد پہ منتخب ہوتے ہیں یعنی جس صوبے کی زیادہ آبادی ہوتی ہے وہی سے زیادہ نشستیں منتخب ہوتی ہیں لیکن سینیٹ میں تمام صوبوں سے ارکان برابر تعداد میں منتخب ہوتے ہیں۔
1973 کے آئین میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے ایوان یعنی سینیٹ کا نظام متعارف کروایا گیا ہے اس نظام کو سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ (واحد قابل انتقال ووٹ) کہا جاتا ہے۔ اس نظام کو مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے ہیں مثلاً آسٹریلیا میں ہیرکلارک سسٹم اور امریکا میں چوائس ووٹنگ۔ اس وقت یہ سسٹم آئرلینڈ اور مالٹا میں رائج ہے۔ آسٹریلیا میں اس کے ذریعے فیڈرل سینیٹ منتخب کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ کار متناسب نمائندگی ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں تمام کے تمام ووٹ امیدواروں کو ملتے ہیں، جماعتوں کو نہیں۔ ووٹ ٹرانسفرایبل ہوتا ہے، ووٹر اپنی پہلی اور دوسری ترجیح کے طور پر اپنے امیدواروں کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس طریقہ کار میں امیدوار کو ووٹوں کی ایک خاص شرح حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اگر ووٹر کا پہلا ترجیحی امیدوار اس شرح کے مطابق ووٹ حاصل کرلیتاہے تو پھر ووٹر کا ووٹ خودبخود دوسرے ترجیحی امیدوار کے حق میں شمار ہو جاتا ہے۔ امیدوار تیسرے ترجیحی امیدوار کا تعین بھی کرتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ووٹرکا ووٹ ضائع نہیں ہوتا۔
سینیٹ کے اجزائے ترکیبی، مُدت اور انتخاب
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔
قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی گنتی کا طریقہءِ کار مشکل اور توجہ طلب ہے۔سمجھنے کی بات کچھ یوں ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں تو سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں ہی کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے، جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔
سینیٹ انتخابات میں پولنگ، ووٹنگ اور گنتی کا طریقہءِ کار
ایوانِ بالا کی 52 نشستوں پر انتخاب کیلئے پولنگ 3 مارچ کو ہوگی۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ چاروں متعقلہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوگی۔ الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کُل تعداد 371 ہے۔ پنجاب سے سینیٹ کی 7 خالی جنرل نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ ارکان کی کل تعداد 371 کو خالی نشستوں کی تعداد 7 سے تقسیم کیا جائے تو ہر امیدوار کے لیے مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 53 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے ایک جنرل نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 53 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ ٹینکنوکریٹ، خواتین اور اقلیتی نشستیں، جن پر متعلقہ صوبے میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان کو 371 نشستوں پر تقسیم کرنے سے ہر نشست کے لیے گولڈن فگر یا مطلوبہ ووٹوں کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثلاً پنجاب میں خواتین کی 2 نشستوں کو کل ارکان 371 پر تقسیم کیا جائے تو مطلوبہ ووٹوں کی تعداد یعنی گولڈن فگر 186 بنتی ہے۔ یعنی پنجاب سے خواتین کی ایک نشست حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو 186 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ گولڈن فگر حاصل نہ کرنے کی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔ دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور ایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں پر اگر 20 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان کو ایک ایسا بیلٹ پیپر دیا جائے گا جس پر تمام 20 امیدواروں کے نام بغیر انتخابی نشان کے درج ہوں گے۔ ووٹ دینے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی بیلٹ پیپر پر تمام امیدواروں کے نام کے آگے ایک سے 20 تک کا ترجیحی ہندسہ درج کریں گے اس طرح سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ یعنی ایک کا ہندسہ حاصل کرنے والا امیدوار سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔
اگر وہ امیدوار مقررہ گولڈ فگر یعنی 53 سے زائد مرتبہ ایک کا ہندسہ حاصل کرتا ہے تو تمام اضافی ایک یعنی اضافی ووٹ دوسری ترجیح حاصل کرنے والے امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اور یوں یہ عمل 7 سینیٹرز کے انتخاب تک دُہرایا جائے گا۔ اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر یعنی رُکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے جبکہ 9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔ سینیٹ انتخابات کے اسی طے شدہ فارمولے کے تحت، جنرل نشستوں کے انتخابات میں، سندھ اسمبلی سے 24 ووٹ لینے والے امیدوار کو کامیاب تصور کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں کے لیے 18 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی جنرل نشستوں پر امیدوار کو کامیابی کے لیے 9 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ فاٹا سے سینیٹ کی 4 نشستوں کے انتخابی عمل میں فاٹا کے 11 ارکانِ قومی اسمبلی ووٹ دیں گے، فاٹا سے سینیٹ کے ایک کامیاب امیدوار کے لیے 3 ووٹ حاصل کرنے ضروری ہیں۔ اسلام آبا کی 2 نشستوں پر ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پوری قومی اسمبلی ووٹ دے گی۔ اسلام آباد کی جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں بھی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب تصور کیا جائے گا۔
One Comment
mubeen
اتنی مشکل سے ان کا انتخاب ہوتا اور یہ نکمے پھر بھی قوم کا مایوس کرتے