ملک بھر کی مساجد میں آج شب معراج عقیدت واحترام کے ساتھ منائی جائیگی۔ علماء اکرام شب معراج کی عظمت وفضیلت پر روشنی ڈالیں گے۔ معراج کمالِ معجزاتِ حضرت محمدﷺ ہیں۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ تعالیٰ نے رحمتِ عالم ﷺ کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار قَابَ قَوْسَيْنِ اور أَوْ أَدْنَى کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپﷺ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ "وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے”۔
رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔ اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا، یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبریل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا "اے اللہ کے رسول، آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے”۔
چناں چہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا "مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گزرے گی”؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی "اے محبوب، آپ امت کی فکر نہ کیجیے، ہم آپ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ اسے خبر بھی نہیں ہو گی”۔
اس واضح بشارت کے بعد سرکار دو عالم براق پر سوار ہو گئے۔ جبرئیل امین نے رکاب تھامی، میکائیل نے لگام پکڑی، اسرافیل نے زین سنبھالی جس کے ساتھ ہی پچاس ہزار فرشتوں کے سلام کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ "براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر کی حد تھی، وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔ براق کا سفر اس قدر تیزی کے ساتھ ہوا جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی، ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چلا گیا”۔
اس سفر کے دوران آپﷺ مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپﷺ آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپﷺکو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔ معراج جسمانی اور روحانی ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے مگر احادیثِ صحیحہ اور تفاسیر ِ معتبرہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ معراج جسمانی تھی اور خدا کے رسول نے فرش سے عرش تک بلکہ قاب قوسین او ادنیٰ تک کی منزل اپنے اسی جسم نازنین خاکی کے ساتھ طے کی تھیں۔