صوبہ پنجاب کے بارے میں اگر ہم انتظامی حوالے سے بات کریں تو یہاں گورننس کا ایک نیا اور سیاہ باب رقم کیا جا رہا ہے، جس میں افسرانِ بالا اپنی ہی دھن میں مگن ہیں اور عوام بے حال ہو چکی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ وہی پنجاب ہے جس کی بیورو کریسی، اعلیٰ افسران، انتظامی مشینری دوسرے صوبوں کلئے رول ماڈل ہوا کرتی تھی، اس کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت کو آئے تین سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اسکے باوجود موجودہ حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور محض اعلانات، دعوؤں اور مفروضوں پر مبنی ہے جبکہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اگر ہم پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو اُس وقت ملک کا ہر طبقہ آج کی نسبت بہت خوشحال تھا، ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن تھا۔ توانائی بحران کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، تقریباً 10ہزار میگا واٹ بجلی قومی سسٹم میں شامل کی گئی۔ سی پیک پر تیزی کے ساتھ کام جاری تھا، پانچ سال میں 1700 کلومیٹر موٹرویز بنائی گئیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر تھے، پاکستان کے سٹاک ایکسچینج کا شمار جنوبی ایشیا کے بہترین سٹاک ایکسچینج میں ہوتا تھا۔
مگر موجودہ حکومت کی مایوس کن پالیسیوں نے تین سال میں ملکی معیشت کو اس حال تک پہنچا دیا کہ آئندہ پانچ سال میں بھی اس کے بہتر ہونے کی اُمید نہیں رکھی جا سکتی۔ تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت کو آئے تین سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے، مگر آج بھی حکومت انتظامی معاملات چلانے کے حوالے سے نااہل نظر آتی ہے، تجربے اور صرف تجربے کئے جا رہے ہیں، افسروں کے تبادلوں کا ریکارڈ قائم کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں شکایت تھی کہ ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کر کے نظام و انصرام حکومت بگاڑتے ہیں، مگر اب انتظامیہ یعنی بیوروکریسی کے اپنے ہی لوگ معاملات میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی جنھیں ریاستی مشینری اور نوکرشاہی کے ساتھ کام کرنا آتا تھا تاہم پی ٹی آئی کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کو نہیں سمجھ آتی کہ صوبے میں کام کیسے کیا جائے اور اس کے بجائے وہ کوشش کرتے ہیں کہ وفاق سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پنجاب کے انتظامات چلائیں اور ایسا نہیں ہو سکتا۔
انتظامیہ دراصل کسی بھی حکومت کا چہرہ ہوتی ہے، آج یہ چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔ مقننہ کا کام قانون سازی، عوام کو سہولت فراہم کرنے کیلئے قواعد و ضوابط ترتیب دینا ہے، مگر اصل حکومت انتظامیہ ہوتی ہے، جس کا کام مقننہ کی جانب سے کی گئی قانون سازی پر عملدرآمد یقینی بنا کر اس کے اثرات نچلی سطح پر عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ عدلیہ کے آئینی فرائض ہیں کہ وہ قانون سازی اور عملدرآمد پر نظر رکھے، مقننہ کو ایسی قانون سازی کرنے کی اجازت دے جو آئین و دستور سے ماورا ہو اور نہ ہی انتظامیہ کو آئینی حدود سے تجاوز کرنے دے، بلا امتیاز مقننہ کے بنائے قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی عدلیہ ہی کا کام ہے۔
ریاست کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں اور نظم ریاست انہی ستونوں پر چلایا جاتا ہے، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ستونوں پر ہی ریاست کا وجود مستحکم انداز سے دائم رہتا ہے، اہم ترین بات ان تینوں اداروں یا ستونوں میں توازن قائم رکھنا ہے، پنجاب کی بیورو کریسی کا برا حال ہے، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار جب چاہتے ہیں اپنی پسند نا پسند سے افسران کا تبادلہ کر دیتے ہیں، چیف سیکرٹری جو انتظامیہ کے سربراہ ہیں انہوں نے چپ سادھی ہوئی ہے، وہ خاموش تماشائی بنے سب کچھ ہوتے دیکھ رہے ہیں، ان کو اپنے اختیارات میں مداخلت پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گڈ گورننس کی بجائے حکومت ایسے ہی چلے گی، طرز حکمرانی نہیں بدلا جائے گا۔