حضرت عثمان غنیؓ کا یوم شہادت آج 18 ذی الحجہ بمطابق 29 جولائی 2021ء ملک بھر میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا، حضرت عثمان غنیؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے، حضرت عثمان غنیؓ سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے حضرت محمدﷺ کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے حضرت رقیہ ؓ بنت محمدﷺ سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد حضرت ام کلثوم ؓ بنت محمدﷺ سے نکاح کیا۔ عثمان غنی ؓ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے، بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی، حضرت محمدﷺ حضرت عثمان غنیؓ پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔
حضرت عثمان غنیؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہﷺ سے جا ملتا ہے، حضرت عثمان غنیؓ کی نانی رسول اللہﷺ کی سگی پھوپھی اور رسول اللہﷺْ کے والد حضرت عبداللہ کی جڑواں بہن تھیں، اس رشتے سے بھی آپ رسول اللہﷺ کے قریبی رشتے دار تھے، حضرت عثمان ؓ کا خاندان ایام جاہلیت میں غیر معمولی وقعت واقتدار رکھتا تھا ،آپ کے جد اعلی امیہ بن عبدشمس قریش کے رئیسوں میں تھے، خلفائے بنوامیہ اسی امیہ بن عبد شمس کی طرف سے منسوب ہوکر "امویین” کے نام سے مشہور ہیں، حضرت عثمان ؓ کا خاندان شرافت، ریاست اور غزوات کے لحاظ سے عرب میں نہایت ممتاز تھا اور بنو ہاشم کے سوا کوئی دوسرا خاندان اس کا ہمسر نہ تھا، حضرت عثمان ؓ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی صلی اللہﷺ سے 47 برس قبل پیدا ہوئے، بچپن اور سن رشد کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛ لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، عہد شباب کا آغاز ہوا تو تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے اور اپنی صداقت، دیانت اور راست بازی کے باعث غیر معمولی فروغ حاصل کیا ۔
سنہ 23ھ 644ء میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے، نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔
حضرت عثمان ؓ کو آنحضرت صلی اللہﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق یہ یقین تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہوچکی ہے، آپ صلی اللہﷺ نے متعدد مرتبہ ان کو اس سانحہ سے خبردار کیا تھا اور صبر واستقامت کی تاکید فرمائی تھی، حضرت عثمان ؓ اس وصیت پر پوری طرح قائم تھے اور ہر لمحہ ہونے والے واقعہ کے منتظر تھے، جس دن شہادت ہونے والی تھی، آپ روزہ سے تھے جمعہ کا دن تھا خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہﷺ اورحضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ تشریف فرما ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ عثمان جلدی کرو، تمہارے افطار کے ہم منتظر ہیں، بیدار ہوئے تو حاضرین سے اس خواب کا تذکرہ کیا، اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت آگیا، باغی مجھے قتل کر ڈالیں گے، انہوں نے کہا امیر المومنین! ایسا نہیں ہوسکتا! فرمایا میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ "عثمانؓ آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا، یہ دونوں خواب مذکور ہیں اور ابن حنبل میں صرف پہلے خواب کا ذکر ہے، پھر پائجامہ جس کو کبھی نہیں پہنا تھا منگوا کر پہنا، اپنے بیس غلاموں کو بلاکر آزاد کیا اور قرآن کھول کر تلاوت میں مصروف ہو گئے۔
باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا، حضرت امام حسن ؓ جو دروازہ پر متعین تھے مدافعت میں زخمی ہوئے، چار باغی دیوار پھلانگ کر چھت پر چڑھ گئے، آگے آگے حضرت ابوبکر ؓ کے چھوٹے صاحبزادے محمد بن ابی بکر تھے، جو حضرت علی ؓ کی آغوشںِ تربیت میں پلے تھے، یہ کسی بڑے عہدے کے طلب گار تھے جس کے نہ ملنے سے حضرت عثمان ؓ کے دشمن بن گئےتھے، انہوں نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان ؓ کی ریش مبارک پکڑلی اور زور سے کھینچی، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا "بھتیجے! اگر تمہارے باپ زندہ ہوتے تو ان کو یہ پسند نہ آتا، یہ سن کر محمد بن ابی بکر شرما کر پیچھے ہٹ گئے اور ایک دوسرے شخص کنانہ بن بشر نے آگے بڑھ کر پیشانی مبارک پر لوہے کی لاٹ زور پر ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ پہلو کے بل گر پڑے، اس وقت بھی زبان سے "بسم اللہ توکلت علی اللہ” نکلا، سودان ابن حمران مراوی نے دوسری جانب ضرب لگائی جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا، ایک اور سنگدل عمر وبن الحمق سینہ پر چڑھ بیٹھا اور جسم کے مختلف حصوں پر پے درپے نیزوں سے زخم لگائے، کسی شقی نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، وفادار بیوی حضرت نائلہ نے جو پاس ہی بیٹھی تھیں ہاتھ سے روکا جس سے تین انگلیاں کٹ کر الگ ہوگئیں، وار نے ذوالنورین ؓ کی شمع حیات بجھا دی، اس بے کسی کی موت پر عالمِ امکان نے ماتم کیا، کائنات ارضی وسماوی نے خون ناحق پر آنسو بہائے، کارکنانِ قضا وقدر نے کہا جو خون آشام تلوار آج بے نیام ہوئی ہے وہ قیامت تک بے نیام رہے گی اور فتنہ وفساد کا جو درازہ کھلا ہے وہ حشر تک کھلا رہے گا۔
شہادت کے وقت حضرت عثمان ؓ تلاوت فرما رہے تھے، قرآن مجید سامنے کھلا تھا، اس خون ناحق نے جس آیت کو خون ناب کیا وہ یہ ہے "فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللہُo وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ” "خدا تم کو کافی ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔”
جمعہ کے دن عصر کے وقت شہادت کا واقعہ پیش آیا، دو دن تک لاش بے گوروکفن پڑی رہی، حرم رسول میں قیامت برپا تھی، باغیوں کی حکومت تھی، ان کے خوف سے کسی کو علانیہ دفن کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، اتوار کا دن گزر کر رات کو چند آدمیوں نے ہتھیلی پر جان رکھ کر تجہیز وتکفین کی ہمت کی اور غسل دیے بغیر اسی طرح خون آلود پیراہن میں آپ ؓ کا جنازہ اٹھایا اور کل سترہ افراد نے کابل سے مراکش تک کے فرماں روا کے جنازہ کی نماز پڑھی، مسند ابن جنبل میں ہے کہ حضرت زبیرؓ نے اور ابن سعد میں ہے کہ حضرت جبیر بن معطم ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع کے پیچھے حش کوکب میں سپرد خاک کیا، بعد میں اس دیوار کو توڑ کر جنت البقیع میں داخل کر لیا گیا، آج بھی جنت البقیع کے سب سے آخر میں مزار مبارک موجود ہے