تفصیلات کے مطابق امریکا میں تعینات پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ امریکا، پاکستان کو مستقل نظرانداز نہیں کرسکتا، تاہم اس مرتبہ پاکستان سے اپنے تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے وہ زیادہ وقت لگائے گا۔ جبکہ تجزیہ کار مائیکل کیوگلمین کا کہنا تھا کہ پاکستان، طالبان پر اثرورسوخ کا ذریعہ ہے۔
امریکا نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان کو طالبان سے تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی تھی، جس پر پاکستان نے مدد کی پیش کش کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ اسے 1990 کی دہائی کی طرح چھوڑا نا جائے، 20 برس بعد طالبان نے امریکی حمایت یافتہ حکومت سے اقتدار واپس لے لیا ہے اور بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر بھلا دیا جائے گا۔
مذیدپڑھیں: عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو اور قیام امن کے لئے آگے آئے: ترجمان دفترخارجہ
پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کھلے دل سے امریکا کی مدد کی تھی، تاہم، امریکا کو شک تھا کہ پاکستان کی فوج ان سے ڈبل گیم کھیل رہی ہے کیوں کہ دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو امریکی کمانڈوز نے پاکستان میں 2011 میں ہلاک کیا تھا، پاکستان طویل عرصے سے افغانستان کو بھارت کے تناظر میں دیکھ رہا ہے، اسے یاد ہے کہ طالبان نے کس طرح بھارت مخالف جنگجوئوں کو خوش آمدید کہا تھا اور 2001 سے 3 ارب ڈالرز عطیات کی مد میں حاصل کیے۔