خطرے کی گھنٹی بجتی جاری ہے اور پاکستان جس نے 2023 میں تیسری بار ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی کرنی ہے اس بارے میں بہت سارے سوالات سامنے آرہے ہیں، ساؤتھ ایشین گیمز منعقد ہونے میں صرف 18 ماہ کا وقت باقی رہ چکا ہے اور ملک میں عام انتخابات سے قبل ساؤتھ ایشین گیمز منعقد ہونی ہیں لیکن ابھی تک نہ تو سیف گیمز سیکریٹریٹ قائم کیا جا سکا نہ ہی کسی قسم کی کوئی کوآرڈینیٹر کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس کے بعد اب یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ساؤتھ ایشین گیمز کو پاکستان سے کسی دوسرے ملک میں منتقل نہ کر دیا جائے اور ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ کہیں ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی پاکستان سے چھین نہ لی جائے۔
سپورٹس کے اداروں میں پیدا ہونے اختلافات کی وجہ سے ہم ایک بہت بڑے بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں، دوسری جانب سری لنکا نے ساؤتھ ایشین گیمز کے حوالے سے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی ہیں تاکہ اس کو سیف گیمز کے انعقاد کا موقع فراہم کیا جائے، اگر پاکستانی اداروں نے باہمی اختلافات کو بھلا کر ساؤتھ ایشین گیمز کی تیاریوں کے حوالے سے عملی اقدامات شروع نہ کیئے تو پاکستان کو ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا اور اتنے بڑے ایونٹ کی میزبانی کسی دوسرے ملک میں کو مل جائے گی جو کہ عالمی سطح پر بہت بڑی ناکامی تصور کی جائے گی۔
اگر ساؤتھ ایشین گیمز کے انعقاد کی تیاریوں کو دیکھا جائے تو ابھی اس بارے کاغذی کاروائی کے علاوہ کوئی اور عملی اقدام نہیں کیا گیا، اور اگر ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان سے ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی چھین لی جاتی ہے تو یہ وزیراعظم عمران خان کیلئے کوئی نیک شگون نیہں تصور کیا جائے گا، 2023 جو کہ الیکشن سال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اگر وزیراعظم عمران خان پاکستان میں ساؤتھ ایشین گیمز کا کامیابی سے انعقاد کروا لیتے ہین تو یہ ان کیلئے ایک بلس پوائنٹ ہوگا کیونکہ آج سے آٹھ ماہ قبل وزیراعظم کی زیر صدارت ساؤتھ ایشین گیمز کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا تھا جس میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، بین الصوبائی رابطہ کمیٹی اور عسکری قیادت نے شرکت کی تھی جس میں وزیراعظم نے حکم دیا تھا کہ پاکستان مارچ 2023 میں ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی کرے گا، اور یہ انعقاد عام انتخابات اور رمضان المبارک سے قبل ہو گا جس کیلئے پنجاب کے 4 بڑے شہروں کا بھی انتخاب کرلیا گیا تھا جس میں لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور گجرانوالہ شامل ہیں۔
حکومتی اداروں نے اگر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے ساتھ باہمی اختلاف کو ختم نہ کیا تو پاکستان میں اتنے بڑے ایونٹ کو انعقاد خطرے میں پڑ جائے گا اور پاکستان میں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کا بہترین موقع ضائع کردیا جائے گا، وزیر اعطم عمران خان اور آرمی چیف کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے نوٹس لینا چاہے کیونکہ اگر پاکستان ساؤتھ ایشین گیمز کی میزبانی گنوا دیتا ہتے تو یہ ملک کیلئے بہت بڑی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنے گا، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیائے کھیل میں ملک کی نیک نامی اور وقار میں اضافے کیلئے ایک دوسرے پرالزام تراشیوں اور ناکامیوں کی ذمے داریاں ڈالنے کے سلسلے کو ختم کرکے مل جل کر گیمز کوکامیاب بنانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آکر مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ پاکستان میں کھیلوں کے سنہرے دور کو واپس لایا جاسکے۔