سعودی عرب جنوب مغربی ایشیا میں افریقا اور ایشیا کے سنگم پر واقع ایک جزیرہ نما ہے جس کا بیشتر حصہ صحرائی ہے۔ جزیرہ نما عرب مشرق وسطی کا اہم ترین حصہ ہے اور تیل اور گیس کے وسیع تر ذخائر کے باعث خطے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سعودی عرب حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
سعودی عرب کا جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے، مغربی ساحلی علاقے التہامہ سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے جبل الحجاز سے جا ملتی ہے۔ جنوب مغربی اثیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہاء جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔
سعودی عرب میں کئی ایسے خوبصورت تفریحی مقامات موجود ہیں جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں، ایسا ہی ایک خوبصورت مقام شمالی شہر حائل کے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل تھا مگر اب سیاح اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ یہ تفریح گاہ اپنے بہترین محل وقوع اور قدرتی حسن کی وجہ سے شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر آثار قدیمہ کا بھی ایک بڑا ذخیرہ سموئے ہوئے ہے۔ سنگلاخ چٹانیں، پہاڑی چوٹیاں، ان کے بیچ پانی کے بہتے جھرنے اور ہرے بھرے جنگلات دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔
اس خوبصورت پہاڑی سیرگاہ کو ‘المسمیٰ’ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کئی پہاڑوں سلسلوں کے درمیان واقع ہے، ان میں پہاڑ کو جبال محجر کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جنوب میں العرقوب، شمال میں عالج تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے درمیان آلات نامی ایک وادی بھی موجود ہے۔ اس وادی کے قریب نچلی سطح کے پہاڑوں میں غضب، صھیہ، المذیبح، السطحیہ، العوجا اور جبل مخروقہ واقعہ ہیں۔ یہ سب مل کر وادی المسمٰی کے قدرتی حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ یہاں پر ہائیکنگ کےشوقین اپنا یہ شوق بھی پورا کر سکتے ہیں۔
جبال المسمیٰ صرف مقامی سیاحوں ہی کیلئے کشش نہیں رکھتی بلکہ خطے میں سیاحت کیلئے آنے والے مغربی سیاح بھی اس کی سیر کر چکے ہیں۔ ایک اطالوی سیاح کارلو گورمانی نے 1860ء میں اس علاقے کی سیاحت کے بعد یہاں کی سیاحت پر ایک کتاب لکھی۔ فرانسیس سیاح ہول اور جرمن سیاح نے 135 سال قبل اس علاقے میں موجود قدیم عربی نقوش اور آثار قدیمہ کی نشاندہی کی تھی۔